کرسمس کی علامتیں – نبیلہ منشاء
کیتھولک کلیسیاء میں ابتداء ہی سے علامتوں کا تسلسل ہے ۔مسیحت میں علامتیں بہت گہرے معنی ،عقیدت اور روحانیت کا اثاثہ ہے ۔لطوریائی سال کے شروع ہی سے علامتوں کےسلسلوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔علامتیں لطوریائی موسموں،دعاؤں اور اہمیت میں کئی گناہ زیادہ اضافہ کر دیتی ہیں۔ آئیں کرسمس کی علامتوں کو جانیں اور اس موسم کی روحانیت میں بڑھیں۔
نبیلہ منشاء
(سینٹ ٹریضہ کیتھولک چرچ، شیخوپورہ)
پیرش پریسٹ: ریورنڈ فادر امتیاز نشان
آمد کا سہرا/ہار
اس کو سدا بہار پتوں اور پھولوں سے سجایا جاتا ہے۔ جو کہ تازگی اور خداوند یسوع مسیح کی ہمیشگی کی علامت ہے۔ اس کے اوپر آمد کی چار موم بتیاں رکھی جاتی ہیں۔ پہلی دو موم بتیاں خداوند یسوع کی دوسری آمد یعنی “آمد ثانی“ ظاہر کرتی ہیں جبکہ بعد والی دو خداوند یسوع کی “ آمد اول ” یعنی جنم دن کو ظاہر کرتی ہیں۔
آمد کی پہلی شمع
یہ شمع نبیوں کی ” نبوت کی پیشن گوئی کرتی ہے۔ اس میں جامنی شمع کے ذریعے تمام نبیوں کی نبوت کو یاد کیا جاتا ہے، خاص طور پر اشعیا نبی کو جس نے ۷۰۰ سال پہلے یہ پیشن گوئی کی کہ ” دیکھو ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی جس کا نام عمانوئیل رکھے گی جس کا ترجمہ ہے خدا ہمارے ساتھ ہے”۔
آمد کی دوسری شمع
دوسری جامنی موم بتی ” محبت کی شمع ” بھی کہلاتی ہے۔ اور اس کو بیت الحم ” کی شمع بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بڑا نشان ہے کہ خداوند یسوع المسیح بیت الحم کی چرنی میں پیدا ہوئے۔
آمد کی تیسری شمع
یہ گلابی رنگ کی شمع ہوتی ہے۔ گلابی رنگ خوشی کی علامت ہے۔ اسے “چرواہوں کی شمع ” بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ چرواہوں کو خوشی کی خبر دی گی کہ “داود کے شہر بیت الحم میں تمہارے لیے ایک منجی پیدا ہوا ہے”۔
آمد کی چوتھی شمع
آمد کے چوتھے اتوار کو جامنی رنگ کی موم بتی روشن کی جاتی ہے جو کہ ” امن کی شمع ” کہلاتی ہے۔ کیونکہ یسوع المسیح کا اس دنیا میں آنا امن سے ہے جو کہ سلامتی اور امن کا شہزادہ ہے۔
کرسمس چرنی
۱۲۲۳ء عیسوی کی بات ہے کہ ایک دفعہ مقدس فرانس آف اسیسی کے خوبصورت قصبہ جس کا نام گریسیو ہے میں تاریخ کی پہلی زندہ چرنی بنائی گی۔
کر سمس ستاره
کہکشاں ستارہ کر سمس کی واقعہ میں ایک خوبصورت روایت ہے۔ یہ روشن ستارہ خداوند کی پیدائش میں ایک راہنما ستارہ بن کر فلک پر رونما ہوا۔ جس کی روشنی میں مجوسی ایک لمبا سفر طے کر کے بیت الحم میں آئے اور منجی دو جہاں کو سجدہ کیا۔ ایک روایت اس عجب ستارے کو الہامی نبوتوں کے پورے ہونے کانشان کہتی ہے۔ رومی، یونانی اور عبرانی ثقافتوں میں ایسے ستارے کا نمودار ہونا کسی بڑے شخص کے پیدا ہونے کی تو ید ہے۔ ایک دوسری روایت ہے کہ ایک اور ستارہ سن ۱۲ قبل از مسیح میں نمودار ہوا جو ۷۰ دن تک بغیر حرکت کیسے ایک جگہ پر کھڑا رہا۔
تین مجوسی
کچھ عالم دین کی رائے ہے کہ یہ تین مجوسی ستارہ شناس اور ماہر فلکیات ہیں۔ اور کچھ عالم دین کہتے ہیں کہ یہ بادشاہ ہیں۔ پھر ان کی رسائی آسانی سے ہیرودیس بادشاہ تک ہوئی۔ ان کی تعداد تو کہیں نہیں لکھی گئی ہیں۔ مقدس متی کی انجیل کے مطابق کئی مجوسی بیت الحم میں آئے۔ لیکن ان کی تعداد سونا، مر اور لبنان سے مقرر کی جاتی ے کہ یہ تین ہیں۔ مجوسی ارمیا کے ملک پورپ ” سے آئے تھے۔
سونا: خدا کے بادشاہ ہونے کانشان
مر: موت کا نشان
لوبان: صحیح کا ہن اعظم
کرسمس ٹری
یہ درخت یورپ کے ممالک میں بہت پایا جاتا ہے۔ جو ہمیشہ سرسبز رہتا ہے۔ پاکستان میں یہ درخت پالود کے نام سے پایا جاتا ہے۔ کرسمس ٹری کا تصور آٹھویں صدی میں بزرگ بونفس (Bonifiss) کے ذریعے جرمنی میں تمام دنیا میں رائج ہوا۔ اس کے رائج ہونے کے بارے میں کئی روایتیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق بیت الحم کی چرنی کے باہر تین درخت تھے۔ ایک لمبا کھجور کا درخ، دوسرازیتون کا، تیسرا پالود کا۔
ان تینوں نے چرنی کے قریب بہت رونق دیکھی اور ایک نامولود بچہ کی آواز بھی سنی۔ پھر انھوں نے دیکھا کہ چند چر وا ہے بھیڑ کا بچہ لیے ان کے نیچے سے گزرے۔اس کے علاوہ پھر انہوں نے دیکھا کہ مشرق سے آنے والے دانشور مجوسیوں نے اپنے اونٹ ان درختوں سے باندھ کر اس بچے کو نذریں پیش کیں۔ ان درختوں کے دل میں بھی اِس نامولود بچہ کو دیکھنے اور اسے تحائف پیش کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔
کجھور نے کہا کہ میں اپنی پتیاں اس بچہ کو پیش کرتاہوں تاکہ اس بچہ کیلیے پنکھا بن سکے۔ زیتون نے کہا کہ میں تیل دوں گا تا کہ اس بچہ کو مسح کیا جاسکے۔ کیونکہ وہ صحیح ہے۔ بالود کا درخت یہ سُن کر خاموش ہو گیا اور دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہا تھا کہ اس بچہ کو کیا نذر کروں۔ایک فرشتہ اُن تینوں کی آواز سُن رہا تھا اس نے دیکھا کہ چھوٹا پاودل وجان سے یسوع المسیح کو تحفہ دینا چاہتا ہے۔ تو اس نے آسمان سے تارے لا کر پالود کی ٹہنیوں پر سجا دیا۔ تب کجھور نے پنکھا اور زیتون نے تیل دیا اور بچہ پالود کو دیکھ کر ہنس پڑا۔ اور پالو د سجدہ میں گر پڑا۔
کرسمس ٹری ہمارے لیے ایمان کا ایک عظیم نشان ہے کہ مسیح خداوند، خدا کا کلمہ جو مجسم ہو اوہ ہماری نجات اور ابدی زندگی ہے۔ کرسمس ٹری جشن کر سمس کی ایک بڑی علامت ہے۔
مزید پڑھیں: کیا پاک ماس کے دوران تالیاں بجانا چاہئیں؟
سینٹا کلائس
کرسمس کی خوبصورت علامات میں سے ایک علامت سینٹا کلائس ہے۔ لفظ “سینٹا کلائس” لاطینی زبان “Santa” سے نکلا ہے جو در حقیقت ایک نام سے نکلا ہے اور یہ نام یہ ہے “Saint Nicholas” تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ”St. Nicholas“ چوتھی صدی عیسوی میں مشرق رومی سلطنت کے ایک صوبہ ”Mayra‘ میں رہتے تھے۔
جو کہ مرثیہ کے شہر کا صوبہ تھا۔ سینٹ نیکولس اپنی ثقافت کے لیے بہت مشہور تھا۔ اور غریبوں کی دل کھول کر مدد کرتا تھا۔ خاص طور پر غریب لڑکیوں کی شادی میں فیاضی سے اپنی طرف سے جہیز دیتا تھا تا کہ غریب والدین کی بیٹیاں جہیز کی وجہ سے بن بیاہی نہ رہ جائیں۔ وہ لڑکپن ہی سے بہت خدا پرست تھا۔ اور اُس نے اپنی ساری زندگی مسیحت کے لیے وقف کر دی۔ شمالی امریکہ کی معاشرتی روایات میں “سینٹ نیکولس ” بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ پوری دنیا میں اور بلخصوص ( Betal Land) بیل لینڈ ، بیلجیم، آسٹریلیا اور جرمنی میں اسے ایسے بزرگ کے طور پر جانا جاتا ہے جو ۲۴دسمبر کی رات کولوگوں کے گھروں میں چینی کے راستے سے داخل ہو کر بچوں کے لیے تحائف لاتا تھا۔ سینٹ نیکولس کو عموماً انتہائی خوش باش اور عمر رسیدہ شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جو کہ سُرخ اور سفید رنگ کا لباس پہنے ہوتا ہے اس کے بال، لمبی داڑھی اور مونچھے بالکل سفید ہوتی ہیں۔ سینٹا کلائس کو اس روپ میں دراصل ایک Thomas Aust Cartoonist“ نے 19ویں صدی میں متعارف کروایا تھا۔ اور ایک روایت ہے کہ سینٹا کلائس قطبی شمالی آٹھ اُڑنے والے بارہ سینگی اور جادوی گھوڑے کے ساتھ رہتا تھا”۔ پوری دنیا کے رہنے والے بچوں کا یہ مانا ہے کہ سینٹا کلائس سال بھر بچوں کے ناموں کی فہرست کو تین درجات میں تقسیم کرتا ہے۔ پہلے اور دوسرے درجے میں جگہ حاصل کرنے والے اچھے بچوں کو کھلونے اور کینڈیز ملتی ہیں جبکہ تیسرے درجے کے بچوں کو وہ کو ئلہ دے جاتا ہے۔ یہ درجات بچوں کے کردار اور رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ بچوں کے لیے کھلونے اور کینڈیز وہ جادوی گھوڑے تیار کرتے ہیں جو کر سمس بابا کے ساتھ رہتے ہیں۔ اور بارہ سینگے کرسمس بابا کی برف گاڑی چلاتے ہیں۔
کرسمس کارڈ
روایت ہے کہ ۱۸۴۳ء میں پہلی بار انگلینڈ میں کرسمس کارڈ پینٹ کیا اور اُس پر مبارکباد دی.
کر سمس کیک
کر سمس کیک کی روایت انگلستان سے شروع ہوئی۔ جہاں پر کرسمس کی شام کو روزہ کھولنے کے لیے کرسمس پورج بنایا جاتا ہے جو مختلف چیزوں کو ملا کر بڑی مٹھاس کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس پورج میں اور بہت سی چیزوں کو ڈالنا شروع کیا جس کے ساتھ ہر دفعہ ہر ایک بار ایک نیا ذائقہ پیدا ہوتا تھا۔ اور یہی روایت چلتے چلتے آگے کیک تک پہنچ گی۔ اور یہ کیک کریمی، فرائی اور فروٹ کیک تھے۔ ان کو نومبر کے مہینے سے ہی تیار کر کے محفوظ کر لیا جاتا تھا تا کہ وہ خمیر جو اس میں ڈالا جاتا ہے ایک اچھے ذائقے کے ساتھ تیار ہو۔ اور کرسمس کے دن سارا خاندان اس کیک کو کاٹتا اور کرسمس کی خوشی مناتا تھا۔
For more updates follow us on
Follow our Facebook Page
Follow us on Instagram
Follow us on Twitter
Subscribe to us on YouTube
Join our WhatsApp Group