مسیحی روزہ کیا ہے؟ یہ کب، کیوں اور کیسے رکھنا چاہیے؟
راکھ کے بدھ سے مسیحی مومنین اپنی پیشانی پر راکھ لگا کر سالانہ روزوں کے ایام کا آغاز کرتے ہیں۔ دُنیا بھر میں ڈھائی ارب سے زیادہ ایماندار روزوں کے ان چالیس ایام سے پاک جمعہ اور ایسٹر کی روحانی تیاری کا آغاز کرتے ہوئے خُداوند یسوع مسیح کے دُکھوں ، اُس کی صلیبی موت اور اُس کے مردوں میں سے زندہ ہونے کو یاد کرتے ہیں۔ روزوں کے چالیس ایام توبہ اور پشیمانی کے ایام ہیں ۔
روزہ کیا ہے؟
اس کے بارے میں بعض مسیحیوں میں روزے کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے ۔ کچھ مسیحی روزہ رکھنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ اُن کا خیال ہے کہ عہد عتیق میں روزہ ماتم کا نشان تھا۔ اور خُداوند یسوع مسیح نے صلیب پر جان دے کر ماتم کو خوشی میں بدل دیا ہے ۔ اس لئے وہ روزہ نہیں رکھتے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ روزہ مشروب پر گزارا کرنا ہے ۔ یہ مسیحی روزہ نہیں ہے ۔ کچھ کا کہنا ہے کہ کھاؤ، پیو مگر کم مقدار میں کھاؤ۔ مثلاً دو روٹی کی بھوک ہو تو ایک روٹی کھاؤ۔ کچھ اور کا کہنا ہے کہ روزہ دل کا ہونا چاہیئے ، دل کا روزہ کیا ہوتا ہے ۔ اس کے بارے میں بھی واضح نہیں ہے ۔
مزید پڑھیں :راکھ کا بدھ اور اس کی رُوحانیت
اور اس طرح کی تعلیم کس طرح ہمارے ایمان کا حصہ ہوسکتی ہے ۔ کلام مقدس کے مطالعہ سے ایک بات تو طے ہے کہ روزہ ایک مخصوص وقت کے لئے ، اور ایک خاص مقصد کے تحت نہ کچھ کھانا اور نہ کچھ پینا ہے : ”موسی خُداوند کے پاس چالیس دن اور چالیس رات رہا۔ نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا ( خروج ۲۸:۳۴) ۔ موسیٰ کا روزہ خُدا سے دس احکام کی لوحوں کو حاصل کرنے کی تیاری تھا۔ تب استیر نے حکم دیا کہ مردکائی کو یوں جواب دو کہ جا اور سوسن کے سب یہودیوں کو جمع کر کے میرے لئے روزہ رکھیں ۔ تین روز تک دن اور رات نہ کچھ کھائیں اور نہ پیئیں اور میں بھی اپنی خواصوں سمیت اسی طرح روزہ رکھوں گی (استیر ۱۶:۴)۔ استیر اور اُس کے لوگوں کا روزہ قوم پر آنے والی مصیبت کو ٹالنا تھا۔
روزہ کے متعلق مسیحی تعلیم
خُداوند یسوع مسیح نے مسیحیوں کو روزوں سے مبرا اقرار نہیں دیا۔ کلام مقدس میں یوں لکھا ہے کہ ”یوحنا کے شاگرد اور فریسی روزہ سے تھے۔ انہوں نے آکر اُس سے کہا۔ اس کا کیا سبب ہے کہ یوحنا کے شاگرد اور فریسیوں کے شاگرد تو روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن تیرے شاگرد روزہ نہیں رکھتے؟ یسوع نے اُن سے کہا کہ کیا براتی جب تک دُلہا اُن کے ساتھ ہے روزہ رکھ سکتے ہیں؟ جب تک کہ وہ دُلہا کے ساتھ ہیں۔ وہ روزہ نہیں رکھ سکتے۔ لیکن وہ دن آئیں گے۔ جب دُلہا اُن سے جُدا کیا جائے گا۔ اُس وقت وہ روزہ رکھیں گئے ( مقدس مرقس ۲ : ۲۰۱۸) ۔
خُداوند یسوع مسیح نے تسلیم کیا ہے کہ اُس کے شاگر یعنی مسیحی روزہ رکھیں گے ۔ مگر اُن کا روزہ دکھاوے کا روزہ نہیں ہونا چاہیئے ۔ اس سلسلے میں خُداوند یسوع مسیح نے ہدایت کی کہ ”جب تم روزہ رکھو تو ریا کاروں کی مانند اپنا چہرہ اُداس نہ بناؤ۔ کیونکہ وہ منہ بگاڑتے ہیں تا کہ لوگ انہیں روزہ دار جائیں۔ لیکن جب تو روزہ رکھے۔ سر پر تیل لگا اور منہ دھو ۔ تا کہ آدمی نہیں بلکہ تیرا باپ جو پوشیدگی میں ہے۔ تجھے روزہ دار جانے۔ اور تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا” ( مقدس متی ۱۶:۶-۱۸) ۔ اس لئے مسیحیوں کے نزدیک روزہ کھانے پینے سے پرہیز ہونا چاہئیے ۔ کیونکہ وہ اپنے خُداوند یسوع مسیح کی تقلید کرتے روزہ رکھتے ہیں۔ وہ نہ کچھ کھاتے اور نہ کچھ پیتے ہیں۔
روزہ کتنی دیر کا ہونا چاہئیے
بعض مسیحی آٹھ پہر یعنی چوبیس گھنٹے کا روزہ رکھتے ہیں۔ اس دوران صرف ایک گھنٹے کے لئے کچھ کھاتے اور پیتے ہیں ۔ مگر سب ایسا نہیں کر سکتے ۔ صرف وہی جنہیں خُدا ایسا کرنے کی توفیق عطا کرے۔ کچھ بارہ گھنٹے کا روزہ رکھ سکتے ہیں۔ یعنی طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک (صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک) روزہ رکھ سکتے ہیں۔ خُداوند یسوع مسیح کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے روزہ دُعا کے ساتھ اور خاموشی سے رکھا جائے ۔ کیونکہ دکھاوے کا روزہ ہمارے اندر روحانی غرور اور تکبر پیدا کرتا ہے۔ مسیحی روزے میں ریاضت ، عبادت اور سخاوت کا پہلو ہو۔ روزہ نفس کشی ہے ۔ بھوک پر غالب آنے سے انسان اپنی دیگر بدنی خواہشات پر غالب آنا سیکھتا ہے ۔
اور دُنیا کی مادی چیزوں سے کنارا کشی کر کے خُدا کے ساتھ اپنے تعلق کو از سرنو جوڑتا ہے ۔ اور دُعا کے ذریعے خُدا کی رفاقت میں اپنا وقت گزارتا ہے ۔ اگر ہم روزہ رکھ کر دُعا نہیں کرتے تو ہمارا روزہ بے فائدہ ہے ۔ روزہ رکھ کر مسیحی اپنے فرض سے غفلت نہیں برتتے بلکہ پہلے سے زیادہ ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض پورا کرتے ہیں ۔ اگر میں غفلت برتنا ہے تو بہتر ہےکہ ایسا روزہ نہ رکھا جائے۔ روزہ کھولنے کے لئے سادہ کھانا کھایا جائے۔ روزوں کے ایام میں سخاوت یا خیرات دینا روزے دار کے کردار کا اہم حصہ ہے ۔ تاہم خیرات دکھاوے اور خودستائی کے عمل سے پاک ہونی چاہئیے۔ لیکن خیرات دینا فرض تصور نہ کیا جائے۔ بلکہ جو کچھ دیا جائے۔ وہ آزاد مرضی اور خوشی سے دیا جائے۔ کیونکہ خُدا خوشی سے دینے والے کو پیار کرتا ہے ۔
بشکریہ: پاکستان کیتھولک بشپس کمیشن فار کیٹیکٹس
Great article give knowledge