آرچ ڈایوسیس آف لاہور میں 2023 تعلیم، ہنر، اور تربیت کا سال رہا
برادر ارسلان اسلم
(کرائسٹ دی کنگ سیمنری ،کراچی)
عزیز بھائیو اور بہنوں! ہر سال کی طرح آرچ ڈایوسیس آف لاہور میں، آرچ بشپ سبسٹین فرانسیس شاء کی راہنمائی میں کلیسیاء کے لئے کوئی خاص موضوع رکھا جاتا ہے۔ جس پر پورا سال کلیسیاء غور کرتی اور اُس موضوع پر عمل پیرا ہوتی ہے۔ تو اِسی بِنا پر آرچ ڈایوسیس آف لاہور میں 2023 خ س ، کو تعلیم، تربیت اور ہنر کا سال مقرر کیا گیا۔ جس کا اعلان آرچ بشپ سبسٹین فرانسیس شاء نے 2022 کے اختتام پر کیا۔ اور پوری آرچ ڈایوسیس آف لاہورکے مختلف پیرشز میں کاہن صاحبان اور مناد صاحبان کی رہنمائی میں تعلیم ، تربیت اور ہُنر کے موضوعات پر مختلف پروگرام ترتیب دیے گئے۔ جس میں خصوصی طور پر نوجوانوں کو سر فہرست رکھا گیا۔ اور نوجوانوں کی تعلیم ، تربیت اور ہنر مندی جیسی صلاحیتوں پر مختلف طریقوں سے رہنمائی کی گئی۔ اور اِس بات کو سُنہری حروف میں بتایا گیا کہ تعلیم ہمیں ایک باوقار شخص بناتی ہے، تربیت ہمیں معاشرے میں رہنے سہنے کے طور طریقے سکھاتی ہے اور ہنر مندی ہمیں باوقار ہونے اور تربیت یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ روزمرہ کی روزی محنت مشقت سے کمانے کی طرف راغب کرتی ہے ۔ اس لیے آرچ بشپ سبسٹین فرانسس شاء نے ،جو کہ ہمیشہ نوجوانوں کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں آرچ ڈایوسیس آف لاہور میں تعلیم، تربیت اور ہُنر کا سال مقرر کیا تاکہ نوجوانوں کی رہنمائی کی جائے اور اُنہیں زندگی میں آگے بڑھنے اور اچھی زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ تاکہ مسیحی قوم کے نوجوان ترقی کریں اور ہمیشہ اپنی قوم کیلئے ترقی کا باعث بنیں۔
٭ تعلیم اور اِس کی اہمیت
لفظ”تعلیم ”انگریزی زبان میں ”ایجوکیشن”اور لاطینی زبان کے لفظ ”ایجوکارے” سے نکلا ہے۔ جس کے معنی ” کسی چیز کو باہر لانا یا سامنے لانا” کے ہیں۔ آج کے اس پرُ عاشور اور تیز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ زمانہ کتنا ہی ترقی کر لے لیکن اگر ایک شخص تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہے، تو اس کا معاشرے میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے۔ ایٹمی ترقی کا دور ہے ۔سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے۔ مگر اسکولوں میں بنیادی عصری تعلیم ،ٹیکنیکل تعلیم ،انجینئرنگ ،وکالت کی ڈگری، اور مختلف جدید علوم حاصل کرنا آج کے دور کا لازمی تقاضا ہے۔ جدید علوم تو ضروری ہی ہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی بھی اہمیت اپنی جگہ مسّمم ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ انسان کو انسانیت سے دوستی کے لیے اخلاق جیسی تعلیم بھی حاصل کرنا اُتنا ہی ضروری سمجھنا ہے جتنا کہ علوم و فنون کی تعلیم کو۔ اس تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی، عبادت، مخلص محبت ،خدمت خلق ،وفاداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ تعلیم کی وجہ سے ا چھے اور نیک معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے۔ تعلیم کے حصول کے لیے قابل اساتذہ بھی بے حد ضروری ہے جو بچوں کو اعلی تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں ۔اُستاد وہ نہیں جو محض چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسز لے کر اپنے فرائض ادا کرے ، بلکہ استاد وہ ہے جو طلبہ و طالبات کی خفیہ صلاحتوں کو بیدار کرتا ہے اور انہیں شعور و ادراک ِعلم و آگاہی نیز فکر و نظر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔ تعلیم وہ زاویہ ہے جو انسان کا کردار سنوار دیتی ہے اور اسے معاشرے میں ایک باوقار اور عزت دار شخص بناتی ہے ۔ ایک لِکھاری ،رابرٹ مکابلے کہتا ہے ـ” کہ ہم آنے والی نسلوں کو یہ کیسے بآور کرائیں گے کہ تعلیم ہی کامیابی کی کنجی ہے”۔
علم دراصل ایک انسان کو انسانی صلاحتوں سے نوازتا ہے ۔جس کی بدولت انسان نیکی اور بدی میں تمیز کر سکتاہے۔ علم ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان دوسرے انسانوں پر سبقت لے جاتا ہے ۔ایک زمانہ تھا جب انسان بجلی کی غرض سے ڈرتا تھا ۔اورآج وہی انسان اِس پر قابو پا چکا ہے ،اسے اپنے قبضے میں کر چکا ہے۔ بجلی کو کئی اہم مقاموں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ علم کی بدولت انسان نے اپنے لیے تفریح کی سہولتیں بھی پیدا کر لی ہیں۔ علم ایسا نور ہے جس سے جہالت اور گمراہی کی تاریکیاں دور ہو جاتی ہیں ۔علم کی بدولت انسان کی چشم بصیرت روشن ہو جاتی ہے۔ اِسی کی بدولت انسان میں نیکی و بدی اور حق و باطل کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔علم ایسا بیش بہار جوہر ہے۔جس سے انسان کے اتوار شائستہ اور اخلاق پاکیزہ بن جاتے ہیں۔اور وہ دل و دماغ کو جہالت کے گہرے اندھیروں اور گہرائیوں سے نکال کر اُس مقام تک پہنچا دیتا ہے جہاں حسد ،دشمنی اور لالچ کا عذر نہیں ہوتا بلکہ انسان کو نیکی، خلوص فیاضی ،اور دوستی جیسی عظیم صفات حاصل ہوتی ہیں۔ تو آئیں خُدا سے حکمت مانگیں کہ وہ ہمیں علم جیسی نعمت سے نوازے ، کیونکہ کلام میں بھی لکھا ہے۔(مزمور 25: 5-4)”کہ اے خداوند اپنی راہیں مجھے دکھا دے۔ اور اپنے راستے مجھے بتا دے۔ مجھے اپنے سچائی پر چلا اور مجھے تعلیم دے کیونکہ تو میرا مخلص خُدا ہے ۔اور میں دن بھر تیری ہی اُمید کرتا ہوں۔ اے خداوند اپنی رحمتوں اور شفقتوں کو یاد کر کیونکہ وہ ازل سے ہیں”۔
مزید پڑھیں: سینٹ میریز پیرش جامکے چیمہ میں تین گرجا گھروں کی تقدیس
٭تربیت
تربیت ایک تدریسی عمل ہے ۔جو خود پر یا کسی اور پر مرکوز ہو سکتا ہے۔ تربیت اور اس سے ملتے جلتے الفاظ ایسے کلمات میں سے ہیں۔ جنہیں ہر ایک اپنی روز مرہ زندگی میں استعمال کرتاہے۔ جیسے تربیت یافتہ، با ادب اورمؤدب۔لغت میں یا اہل لغات نے تربیت کے معنی پالنا،تربیت کرنا اور کسی کونشو ونما دے کر حد ِکمال تک پہنچانا ہے۔تربیت کے مخصوص مقاصد ہیں کہ کسی کی صلاحیت، کار کردگی، تحقیقی نوعیت اور عملی کیفیت بہتر بنانا۔
٭تربیت ،یعنی انسان کی پوشیدہ اور چھُپی ہوئی صلاحیتوں کی تربیت کرنا ہے۔
٭تربیت، یعنی انسان کو پستی سے نکال کر بلندی اور تکامل کی راہ پر گامزن کرنے اور اسے آگے بڑھانا،اور جن صفات کی ضرورت ہو ان کی دیکھ کر صحیح پروان چڑھانا تربیت کہلاتا ہے۔
٭تربیت، یعنی کسی کے اندر مناسب رفتار پیدا کرنا اور اس کو اچھے ہدف تک پہنچانا ۔اور اُس کی استعداد کو اجاگر کرنا، تربیت کے زُمرے میں آتا ہے۔
مسیحی نوجوانوں کی تربیت کیوں ضروری ہے؟
کیونکہ وہ روشن ستارے ہیں ، کیونکہ وہ مستقبل کے قائد ہیں، ایمان کے گواہ ہیں،مُلک کی قیادت کے حصہ دار ہیں،مستقبل کے درخشاں ستارے ہیں، معاشرے میں خاندانوں کی روحانی،اخلاقی،زہنی اور انسانی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، وہ حق اور سچ کی آواز ہیں،اور کیونکہ مسیحی نوجوان نئی منزلوں اور نئے راستوں کے مسافر ہیں۔ اسی لئے مسیحی گھرانوں پر بلخصوص ماں باپ پر یہ لازم وملزوم ہے کہ وہ بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ اُن کی تربیت پر بھی غور کریں اور اچھی تربیت دیتے ہوئے معاشرے کے باوقار انسان بنائیں۔ کیونکہ مسیحی پرورش اور تربیت معاشرے میں مسیحیت کی گواہی ہے۔
٭ ہنر
بنیادی طور پر ہنر شعور یا مہارت کو کہتے ہیں۔ جو کہ ہر ایک انسان میں پایا جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی انسان رہتے ہیں اُن میں اُن کی صلاحیتوں کے مطابق ہنر پائے جاتے ہیں ۔ خدا ہر انسان کو مختلف نعمتوں سے نوازتا ہے اور ہر انسان میں ہنر جیسی مہارت پائی جاتی ہے ۔کسی کے اندر، وقت کی پابندی کرنے کا ہنر، کسی کے اندر ٹیم ورک، اور کسی کے اندر لیڈرشپ جیسے ہنر پائے جاتے ہیں ۔خدا کا رحم ہر انسان پر ظاہر ہوتا ہے جو کہ خوبی مہارت اور شعوریا ہُنر کی صورت میں نظر آتا ہے۔
٭ہُنر مندی کیا ہے؟
ہنر مندی وہ ہے جس کو سیکھا جا سکتا ہے، پیدا کیا جا سکتا ہے ،پالش کیا جا سکتا ہے، پریکٹس کیا جا سکتا ہے یا جس کو پہلے سے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اُسے ہنر مندی کہتے ہیں۔ اسی لئے ہمیں آج کے اِس افراتفری کے دور میں انسانی مہارتوں کو دیکھتے ہوئے اپنے اند ایسی صلاحیتیں یا ہُنر مندی کو اجاگر کرنا ہے کہ نوجوان اپنی زندگی میں ہُنر کی بدولت اچھا کمائے اور ہمیشہ اپنے خاندان اور گھر گھرانے کی اچھی کفالت کرتا رہے۔اور معاشرے میں ایک وفادار اور سچا انسان ہوتے ہوئے ایمان کی گواہی دیتا رہے۔
اسی لئے ہمیں آج کے اِس دور میں ،اپنی زندگی میں اِن تین اہم پہلوؤں یعنی ‘‘تعلیم ،تربیت او ر ہُنر ــ’’ کو اپنی زندگی میں اہمیت دینی اور اچھی اور ایمان سے بھر پور زندگی گزارنی ہے۔ آرچ بشپ سبسٹین اپنے ایک پیغام میں کہتے ہیں ‘‘کہ خُدا مہربان ہے اور ہمیں ہمیشہ تعلیم ، تربیت اور ہُنر سے نوازتا ہے۔ اور جب ہمارے مسیحی نوجوانوں کے پاس تعلیم، تربیت اور ہُنر ہوگا تو پھر فخر کے ساتھ جیئیں گے، محتاجی ختم ہو جائے گی اور جب محتاجی ختم ہوگی توغربت بھی دور ہو جائے گی۔اور یہ سب تعلیم، تربیت اور ہُنر کے ساتھ ہی ممکن ہے۔